Title Image

وفا و بے وفائی ، محبت و نفرت کا تال میل

انوکھی یہ کہانی ہے وفا اور بے وفائی کی ، جس کے درمیان محبت اور نفرت بڑی سمجھ بوجھ سےصلح کرواتی ہے۔

وفا اور بے وفائی کا آپس میں بہت جوڑ تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہتے تھے جہاں وفا جاتی بے وفائی بھی پیچھا کرتی ہوئی وہاں پہنچ جاتی ۔ ایک دن وفا اور بے وفائی کے درمیان بحث ہو گئی کہ وہ ایک دوسرے سے زیادہ طاقت ور ہیں ۔ وفا اور بے وفائی کی بحث نے تلخ کلامی پکڑ لی کوئی بھی ایک دوسرے سے ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔

اُدھر سے محبت اور نفرت کا گزر ہوا جب انہوں نے دیکھا وفا اور بے وفائی آپس میں جھگڑ رہی ہیں تو انہوں نے جھگڑا کرنے کی وجہ پوچھی تو وفا اور بے وفائی نے اپنا سارا مدعا سنا دیا تو محبت بولی : میں تم کو انسانوں کے بارے میں ایک ایسا واقعہ سناتی ہوں جس میں ہم چاروں نے اپنی ذمہ داری باخوبی نبھائی اس واقعہ کو سن کر بتانا کون طاقتور ہے اور کون کمزور۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک غریب آدمی تھا ۔ وہ با مشکل اپنا گزر بسر کرتا تھا لیکن ہر ایک کے ساتھ پیار و محبت اور خلوص سے ملتا تھا اس کی اس عادت کی وجہ سے سب لوگ اس کی عزت کرتے تھےاور اسے دعائیں بھی دیتے تھے ۔ وہ کسی کا دل نہیں دکھاتا تھا ۔ ایک دن اس کا بہت بڑا انعام نکلا اور وہ امیر ہو گیا اُس شخص نے اپنا کپڑوں کا کاروبار شروع کر دیا ۔ وہ امیر سے امیر تر ہوتا گیا اس نے بہت سی فیکٹریاں بنا لیں اس کی وجہ اس کا اخلاص تھا اور لوگ وفادار ہو کر اس کے ساتھ کام کرتے تھے جس بنا پر اسے ترقی پہ ترقی ملتی گئی لیکن بڑھتی دولت کی ہوس نے اس کے اندر لالچ پیدا کر دی اور وہ غریب لوگوں کو نفرت سے دیکھنے لگا آہستہ آہستہ میں (یعنی محبت) نے اُس کا ساتھ چھوڑ دیا اور میری جگہ نفرت آ گئی ۔ اس کا ضمیر اس کو بار بار سمجھاتا بھی لیکن لالچ نے اس کے دماغ کو جکڑ رکھا تھا جس کی وجہ سے اس کے دل سے محبت کا وجود ختم ہوتا گیا اور نفرت نے پوری طرح اس کے دل کو اپنے قابو میں کر لیا جس کی وجہ سے وہ اپنے کام کرنے والے لوگوں کو تکلیف پہنچاتا اور وہ دکھی ہو کر آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتے گئے ۔ یہی وجہ تھی کہ اب اس کے پاس کوئی وفادار لوگ موجود نہ تھے۔ اب مطلبی اور بے وفا لوگ اس کے آس پاس رہنے لگے ، جو اس کے ہر غلط کام کی جھوٹی تعریف کرتے ۔ بے وفا لوگوں نے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا اور اس کے کام کو نقصان ہونے لگا ، یہاں تک کہ وہ کنگال ہو گیا پھر اسے اپنے کیے پر ندامت ہوئی۔

یہاں پر وہی کہاوت بھر پور طریقے سے سماتی ہے ۔ " اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"

محبت نے پوچھا ، کہ اب بتاؤکون طاقتور ہے اور کون کمزور۔محبت نے کہا ، یہاں پر کوئی طاقت ور نہیں ہے ۔ یہ انسان پر ہے کہ وہ صحیح راستے کا انخاب کرتا ہے یا برے کا ، اگر وہ نیک اور صحیح راستے پر جاتا ہے ، تو محبت اور وفا اس کا سا تھ دیتے ہیں اگر وہ غلط راستے کا انتخاب کر لے تو نفرت اور بے وفائی اس کے ساتھی بن جاتے ہیں ۔ جس انسان کا ضمیر اور ایمان زندہ رہتا ہے ، وہاں وفا اور محبت کی جیت ہوتی ہے اور جہاں پر ضمیر اور ایمان دونوں مردہ ہو جائیں تو وہاں نفرت اور بے وفائی کا بول بالا ہوتا ہے۔

اس لیے کوئی بھی کسی سے زیادہ طاقتور نہیں ہے ۔ ہم تو بس ایک دوسرے کی ضد اور جوڑ ہیں کہ جہاں محبت ہو گی وہاں نفرت بھی ہو گی اور جہاں وفا ہو گی وہاں بے وفائی بھی ہو گی۔ اس طرح وفا اور بے وفائی میں صلح ہو گئی اور وہ سمجھ گئیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہی ہیں ۔ جس طرح محبت اور نفرت آپس میں صلح کے ساتھ رہتے ہیں اب وفا اور بے وفائی بھی آپس میں صلح کے ساتھ رہنے لگ گئیں۔

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم سب کو اچھے اور بُری چیز کی تمیز یا سمجھ بوجھ ہونی چاہیے اور بُری صحبت سے بچنا چاہیے ہمیں ایسے دوست کا انتخاب کرنا چاہیے ۔ جو ہم کو اچھا مشورہ دے اور ہمارے دکھ سکھ میں کام آئے ۔ اس کے علاوہ ہر ایک سے خلوصِ محبت اور عزت سے بات کریں اور بڑوں کا ادب و احترام کا خیال رکھیں ۔ جس سے ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور سکتی ہیں۔