افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
معاشرہ عربی زبان کا لفظ ہےـ جس کے معنی ہیں مل جل کر رہناـ جہاں لوگ مل جل کررہتے ہیں وہاں معاشرہ وجود میں آتا ہےـ یعنی افراد سے ہی معاشرہ تشکیل پاتا ہےـ جرم کے معنی خلاف قانون حرکت اور قابل سزا فعل کے ہیں موجودہ دور میں جرائم ایک عام معمول اور معاشرے کا لازمی جزو بن گۓ ہیں ـ جرائم خواہ اخلاقی ہوں یا جنسی طورپر ـ لوٹ مار ہو یا قتل کے متعلق ـ علاقائ اور شہری سطح پر یا ملکی و بین لاقوامی سطح پر ہوں ـ ان کی زد سےنہ انفرادی زندگی محفوظ ہے نہ اجتما عی ـ آج پورے عالم میں جرائم اور برائوں کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے ـ ہر کوئ اس کے اصل اسباب کا سراغ لگانے کی کوشش کررہا ہے ـ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
جرائم کی شرح کے بارے میں سالانہ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ جرائم امریکا میں سرزد ہوتے ہیں ـ معاشرے میں قانون کی بالادستی نہ ہوتو معاشرے میں عدل نا پید ہو جاتا ہے ـ آج بڑھتے ہوۓ جرائم کے نوجوان نسل پرجس قدر اثرات مرتب ہو رہے ہیں ان کی بڑی وجہ عملی تربیت کا اسلامی طرز زندگی کے اصولوں کے مطابق نہ ہونا ہےـ اسلام میں معاشرےکو بڑی اہمیت حاصل ہے ـ اس کے لیے اسلام میں قوانین بھی واضع کردیے گۓہیں لیکن ہم نےاسلام سے دوری اختیار کی ہوئ ہے ـ جس کے نتاءج یہ ہیں کہ معاشرے میں جھوٹ، قتل، سود،شراب نوشی اور دوسروں کی ہق تلفی جیسی براءیاں جنم لے چکی ہیں ـ
ارشاد باری تعالی ہے
اور جو کچھ مصیبتیں تمہیں پہنچتی ہیں وہ د راصل تمہاری اپنی کرتوتوں کا نتیجہ ہے اور بہت سی باتیں تو ایسی ہیں جن کو وہ معاف فرمادیتا ہےـ
اب سوال یہ ہے کہ اس معاشرتی بگاڑ کا ذمہ دارکون ہے؟ جب میں معاشرتی بگاڑ کے ذمہ داروں کو ڈھونڈنے نکلتی ہوں تو سب سے پہلے اپناچہرہ نظر آتا ہے ـ کیا میں نےمعاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا؟ ارے کہاں ـ ہم تو وہ قوم ہیں جنہوں نے اپنے ملک کے قانون کو پیروں تلے روند دیاـ ہم تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں مغربی تہذ یب کو حاوی کیا ہوا ہے ـ ہمادا کوئ ایسا شعبہ نہیں جس میں بحران نہ ہوـ کوئ ایسا محکمہ نہیں جس میں کرپشن نہ ہوـ کوئ ایسا گھر نہیں جس میں لڑائ نہ ہوـ کوئ ایسا فرد نہیں جس میں خود غرضی نہ ہوـ ہم سب، ایک ایک فرد معاشرتی بگاڑ کے ذمہ دار ہیں ـ آج ہمارے معاشرے کو جومسائل درپیش ہیںان کی بڑی وجہ خوف خدا سے غفلت اور آخرت کی فکر کو ترک کرنا ہےـ اگر اب بھی ہمارے لوگوں کے دلوں میں یہ حقیقت راسخ کردی جاۓ کہ زندگی اس دنیا تک محدود نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ایک نہ ختم ہونے والی زندگی ہوگی جس میں حقیقی معنوں میں کامیابی ناکامی کا اعلان کیا جاۓ گا تو صرف ایک چیز ہے جو انسان کو تنہائ میں بھی مجرمانہ سرگرمیوں سے روکتی ہے اور وہ ہے فکر آخرت ـ
نہ خوف خدا ہے، نہ خوف خدائ بشر دے رہا ہے بشر کی دہائ
ایک انسان کی انفرادی طور پر نیکی اور پارسائ اور مجموعی طور پر معاشرے میں نیکی اور پرہیزگاری ہی ایک بہتر اور پر امن معاشرے کی ضمانت دیتی ہے. آج ہر فرد اپنے اپنے ذاتی مفادات کےحصول کے لیے کوشاں ہےـ ہر فرد خود غرضی اور خور فریبی کے جنون میں مبتلا ہےـ معاشرے کی مثال مکان کی سی ہےـ جب کشتی برائ اور گناہوں کے سراخوں کی وجہ سے ڈوبنے لگے گی تو صرف گناہگار ہی غرق نہ ہونگے بلکہ یہ کشتی نیک و بد سب کو لے ڈوبے گی ـ
ارشاد باری تعالی ہے
اور ایک دوسرے کی مدد نیکی اور تقوی میں کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کروـ
معاشرے کا سدباب ہرفرد کے ہاتھ میں ہےـ ہم چاہیں تو اسے بگاڑ سکتے ہیں ااور چاہیں تو اس کو امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں ـ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد استاد سے لے کر شاگرد تک، عالم سے لے کر طالب علم تک، افسر سے لے کر ملازم تک، کسان سے لے کر مزدور تک،حکمران سے لے کر گاڑی بان تک، ہر کوئ برائ کو برائ جانے اور اچھائ کواپناۓـ ہمیں چاہیےکے اپنے اندر کی تمام بد اخلاقیوں کو ختم کر کے حسن اخلاق کا پیکر بن جایں ـ کیونکہ اخلاق ہی وہ چیز ہے جس کا ہر عمل اسلام کی رو سے اچھائ ہےـہمیں چاہیے کہ اپنے اندر امانت و دیانت، علم و حیا، مساوت وبرابری، اخوت اور بھائ چارہ غرض ہر اچھائ پیدا کریں اور اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ـ تو پھر معاشرے میں بگاڑ کا کیا کام ـ